داریل سمیگال گرلز سکول میں لگی آگ کے شعلوں سے نئی اُمیدوں، اُمنگوں اور رنگوں کی بہار ہوئی
دیامرانتظامیہ اور محکمہ تعلیم کی پھُرتیاں قابل تعریف و تقلید مگر تعلیم دشمنوں کے سامنےقانون بے بس کیوں کھڑا ہے؟
فداعلی شاہ غذری
صحافی
گزشتہ ہفتے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کی دورافتادہ اور قدرے پسماندہ تحصیل داریل کے گاوں سمیگال میں نا معلوم شر پسندوں کے ہاتھوں خاکستر ہونے والے گرلز سکول نئی امیدوں، امنگوں اور رنگوں کیساتھ بحال کر دیا گیا ہے۔ خدیجہ الکبریٰ کے نام سے منسوب اس سکول کو 7 نومبر کی رات جاہلیت کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں تب لیئے جب نامعلوم افراد مبینہ طورپر چوکیدار کو باندھ کر سکول کی عمارت کونذرآتش کردیا. 8 نومبر کی صبح دیامر سمیت گلگت بلتستان کے کونے کونے تک سکول جلانے کی خبر پھیل گئی اور مقامی انتظامیہ، ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت سب کی توجہ کا مرکز نذر آتش سکول رہا. ڈپٹی کمشنر دیامر دوڑ کر داریل پہنچے اور سکول ہذا کی مرمت کا اعلان کرکے واپس چلاس وارد ہوئے. پھر کیا تھا کہ سب کی نظریں سکول پر مرکوز ہوئیں، چیف منسٹر خالد خورشید، چیف سکریٹری محی الدین وانی، داریل سے رکن اسمبلی و پارلیمانی سکریٹری برائے تعلیم ثریا زمان سب مل کر پانچ روز میں سکول کی بحالی کا حکم صادر کیئے. دیامر انتظامیہ اور محکمہ تعلیم دیامر نے ایمرجنسی بنیادوں پر تاریخ ساز اور تیز ترین مرمتی کام مکمل کرکے داریل سمیگال گرلز سکول کی نقشہ و حالت ہی بدل کرکے رکھ دیئے. پہلے روز ہی 26 نئی بچیوں نے سکول میں داخلہ لیں جو اس بات کی تصدیق ہے کہ علم دوستوں میں 26 خاندانوں کا اضافہ ہوا .
گزشتہ روزایک شاندار افتتاحی تقریب کے ساتھ یہ سکول دوبارہ کھول دیا گیا ہے. پارلیمانی سکریٹری برائے تعلیم ثریازمان، پارلیمانی سکریٹری برائے سیاحت دلشاد بانو ، کمشنر دیامر ڈویژن دلدارملک ، ڈپٹی کمشنر دیامر سمیت اعلیٰ حکام تقریب میں شریک ہوئے. تقریب سے خطاب کرتے ہوئے داریل کے اکلوتی خاتون سیاست دان ثریا زمان نے کہا کہ وہ اہل داریل کے مشکور ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کے سکول جلانے والوں کے خلاف دن رات کام کرکےان کا سکول بحال کروایا اور شر پسند و تعلیم دشمنوں کو واضح پیغام دیئے کہ اب داریل میں کسی بچی کو تعلیم سے محروم رکھنا مشکل ہے. انہوں نے کہا کہ پہلی بار عوامی مزاحمت ہوئی جس کے لئے اہل داریل مبارکباد کے مستحق ہیں. ثریا زمان نے کہا کہ جب ان بچیوں نے ان سے پوچھیں کہ ان کا سکول کیوں جلا دیا گیاتھا، کیوں ان کو تعلیم سے محروم رکھا جا رہا ہے تو ان کے پاس ان معصوم سوالوں کا جواب نہ تھا. اس موقع پر دلشاد بانو نے کہا کہ خواتین کی تعلیم ضروری ہے اس لئے لوگ اپنی بچیوں کو تعلیم دیں تا کہ ایک بہتر سماج کی تشکیل ممکن ہو.
دیامر میں سکول خاص کر لڑکیوں کے سکول جلانے کا یہ پہلا واقعہ ہرگز نہ تھا اس پہلے 2005 اور 2018 کو تقریبآ 14 سکولوں کو نذر آتس کیا گیا تھا مگر پہلی بار عوامی سطع پر ان شر پسندوں کے خلاف آواز اُٹھائی گئی اور کھل کر اظہار کیا گیا. چلاس میں دیامر یوتھ مومنٹ کی طرف سے ریلی نکالی گئی جس میں یہ مطالبہ سامنے آیا کہ ریاست ان شرپسندوں کو گرفتار کرے تاکہ آئندہ کوئی ان کی ماوں ، بیٹیوں اور بہنوں کے سکول کو ہاتھ تک نہ لگا سکے. دیامر یوتھ موومنٹ کےصدر شبیر قریشی ریلی سے خطاب کرتےہوئے کہا کہ 2005 اور 2018 کے تعلیم دشمن اگر قانون کی گرفت میں آچکے ہوتے تو آج کا یہ واقعہ رونما نہ ہوتا. انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ کیا کہ اس دفعہ سمیگال سکول جلانے والوں کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے.
تعلیم کے میدان میں قدرے پسماندہ داریل بظاہر اپنے قبائل طرز زندگی کی وجہ سے ایک سخت گیر سماج کی عکاسی کرتا ہے مگر درحقیقت یہاں کے لوگ پُرامن، خوش اخلاق اور انسان دوست ہیں. داریل بدھ مت کے آیام سے ہی تعلیم کا مرکز رہا ہے اور یہاں پربدھ مت دور کے سب سے بڑا تعلیمی مرکز ہوا کرتا تھا جس کے کھنڈرات اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں. مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سماج لڑکیوں کی تعلیم اوران کے حقوق اور اپنے قبائل طرز فکر کے درمیان شش و پنج کا شکار رہاہے. حالیہ سکول جلانے کے اس واقعے کے بعد اہل داریل کی اکثریت کھل کر اپنی بچیوں کےحق میں لب کھولتے دیکھائی دی. داریل سے ایک سماجی کارکن ( نام نہ لینے کی شرط پر ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس دفعہ عوامی مزاحمت کا آغاز ہوا آئندہ بڑی تحریک اُٹھے گی. اور انہوں نے کہا کہ ریاست ایسے شر پسندوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے تاکہ دوبارہ کوئی مائی کا لال سر نہ اُٹھا سکے.
سمیگال سکول کے واقعے کے بعد حکومت، انتظامیہ اور محکمہ تعلیم کی پھرتیاں تونظر آئیں جو قابل تعریف و تقلید ہیں مگران ہی لوگوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سوالیہ نشان ہے کہ آخر کیا مجبوری ہے کہ ان شرپسندوں کے خلاف کاروائی ممکن نہیں ہوتی. اس سوال کا جواب لینے کے لئےایس پی شیر خان سے رابط کیا گیا تو انہوں ہمیں بتایا کہ اس واقعے پر فوری طور پر 2 گرفتاریاں ہوئی ہیں، ایک تو سکول کے چوکیدار ہی کو گرفتار کیا گیا ہے جو کہ من گھڑت کہانی بنایا تھا جبکہ وہ موقع پر موجود ہی نہ تھا. واقعے کی رات وہ اپنے سسرال میں سو رہے تھے. ایس پی نے بتایا کہ مزید تفتیش اور تحقیقات کے لئےجوائنٹ انویسٹگیشن ٹیم تشکیل دی گئی ہے جس میں پولیس اوردیگر ایجنسیوں کے اہلکار شامل ہیں. ایس پی دیامر نے مزید بتایا کہ پولیس ماضی میں سکول جلانے کے واقعات میں شامل عناصر کو گرفتار کرکے عدالت کے حوالے کر چکی تھی تاہم موثر اور مضبوط ثبوت نہ ہونے کے باعث وہ رہا ہوگئے.
دیامر کے سینئر صحافی شہاب الدین غوری سے جب پوچھا گیا کہ کہ وہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اب تک کی کاروائی سے کتنا مطمئن ہے تو انہوں کہا کہ انہیں یقین ہے اس کاروائی میں ملوث افراد ضرور گرفتار ہونگے کیونکہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ ٹیم کاروائی کر رہی ہے. ان کے بقول کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور ایس پی دیامر دو دن پہلے داریل کا دورہ کرکے عمائدین کو کہا ہے کہ وہ تعاون کرکے زمہ داروں کی نشاندہی کرے بصورت دیگر سخت کاروائی ہوگی اور ذمہ داروںکا تعین ریاست کرے گی. شہاب الدین غوری نے کہا کہ ماضی میں کسی کی گرفتاری یا قرار واقعی سزا نہ ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات جنم لے رہی ہیں اب کی بار قانون حرکت میں آئیگا.