سیلاب سے 3.5 ملین طلباء بے گھرہوئے، تعلیم دوبارہ شروع کرنے کے لیے فوری مدد کی ضرورت ہے: سول سوسائٹی
اسلام آباد
پاکستان کی سول سوسائٹی نے اقوام متحدہ کی حالیہ کانفرنس میں سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے عالمی برادری کی طرف سے کیے گئے 9 ارب ڈالر سے زیادہ کے وعدوں کا خیرمقدم کیا ہے۔ یہ اعلان اسلام آباد میں جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیانیے میں کیا گیا ۔ بیانیے میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے فوری اقدامات اور متاثرہ علاقوں میں تعلیمی نظام کی تیزی سے بحالی پر خصوصا زور دیا گیا۔ یہ بیانیہ مشترکہ طور پر پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن (PCE)، سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو (CPDI)، پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس (PYCA)، یونائیٹڈ گلوبل آرگنائزیشن آف ڈویلپمنٹ (UGOOD)،اور معروف ماہرِ تعلیم، ڈاکٹر اے ایچ۔ نیئر کی جانب سے جاری کیا گیا۔
بیان میں عالمی امداد کو مؤثر اور شفاف طریقے سے استعمال کرنے پر زور دیا گیا۔ یہ بیان ایک مشترکہ کال ٹو ایکشن کے ساتھ جاری کیا گیا جس میں ریاستی اور غیر ریاستی اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ سیلاب سے متاثرہ بچوں کو اسکول واپس لانے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ متاثرہ گھرانوں کو ان کے بچوں کی تعلیم کے لیے مشروط نقد رقم کی منتقلی کی تجویز بھی دی گئی۔
کال ٹو ایکشن میں تباہ شدہ اسکولوں کی معیاری تعمیرِ نو اور انہیں تمام بنیادی سہولیات (مثلاً چار دیواری، واش رومز، پینے کے صاف پانی، بجلی، متعدد کلاس رومز، وغیرہ) سے لیس کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ پاکستانی طلباء کو ہنگامی حالات کے لیے موثر تیار کرنے کے لیے نصاب میں "سبز”، ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن (DRR) اور ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ (DRM) کی تعلیم فراہم کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔ بیانیے میں پسماندہ گروہوں بشمول لڑکیوں، معذور بچوں اور ٹرانس جینڈر طلباء کے لیے معیاری تعلیم کے تسلسل کی عجلت پر خصوصی زور دیا گیا۔
پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن کی نیشنل کوآرڈینیٹر، زہرہ ارشد کے مطابق، "سیلاب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے 35 لاکھ طلباء کا تعلق اس پسماندہ طبقے سے ہے جس کی تعلیم کورونا وائرس کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ وبائی مرض سے پہلے، پاکستان میں تقریباً 2 کروڑ 80لاکھ بچے اسکولوں سے باہر تھے۔ اسکولوں سے باہر ان بچوں میں 77 فیصد کا تعلق دیہی علاقوں سے تھا اور ان میں سے 54 فیصد لڑکیاں تھیں۔یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں مختلف قسم کی معذوری کے ساتھ رہنے والے تمام بچوں میں سے 96 فیصد کو تعلیم تک رسائی ہی نہیں ہے۔” انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان فنڈز کا ایک مناسب حصہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لچکدار تعلیم فراہم کرنے کے لیے مختص کیا جانا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ متاثرہ بچے اپنی تعلیم جاری رکھ کر اپنی زندگیوں کی تعمیرِ نو کر سکیں۔
بیان میں کہا گیا کہ کورونا وائرس کے دوران اسکولوں کی طویل بندش کی وجہ سے 930,000 پاکستانی طلباء نے اسکول چھوڑ دیے، جس سے اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح میں 4.5 فیصد اضافہ ہوا۔ "اعداد و شمار کے مطابق، غریب ترین گھرانوں میں 14-16 سال کے بچوں کے اندراج میں ڈرامائی کمی بھی دیکھی گئی،” پی۔وائی۔سی۔اے کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اریبہ شاہد۔
سیلاب کے بعد ملک کے تعلیمی نظام کو ایک بار پھر بڑا جھٹکا لگا ہے۔ اس بحران پر روشنی ڈالتے ہوئے، سی۔پی۔ڈی۔آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مختار احمد علی نے کہا، "25,000 سے زیادہ اسکول مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکے ہیں اور تقریباً 7,500 فعال اسکولوں کو عارضی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سے متاثرہ علاقوں میں 35 لاکھ سے زائد طلباء باضابطہ تعلیم تک رسائی سے محروم ہو گئے ہیں۔”
زہرہ ارشد نے کہا، "ان مطالبات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت تعلیم میں سرمایہ کاری پر سمجھوتہ نہ کرے اور جی۔ڈی۔پی کا کم از کم 4 سے 6 فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کرئے۔”