پاکستان

پاکستان کو ٹوٹے، بنگلہ دیش کو بنے 51 سال گزر گئے

پاکستان کو ٹوٹے، بنگلہ دیش کو بنے 51 سال گزر گئے

فداعلی شاہ غذری
صحافی

آج 16 دسمبر ہے، جی وہ سولہ دسمبر جس دن دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنے پاکستان کو معاشرتی، سیاسی اور فوجی رویوں نے مل کر دو لخت کر دیے. اس 16 دسمبر سے اُس سولہ دسمبر تک بظاہر اکیاون برس پورے ہوگئے لیکن اپنے ہاں دو قومی نظریے کے بعد کئی نظریوں کی جنم کو، رویوں میں دوغلہ پن کو، سیاست میں منافقت کو نیز شجاعت میں تجارت کو پختہ در پختہ ہونے میں 75 سال ہوچکے ہیں. آئیے زرا ان کو الگ الگ رکھ کر دیکھ لیتے ہیں کہ آخر ہم کس رویے کو عروج بخش سکے، کونسا نظریہ یکتا رہا، منقسم نظریوں کا کیا بنا، سیاست نے کونسی منافقت دیکھائی، اور شجاعت کے دعویداروں نے کس تجارت میں خوف کا رنگ بھر کر منافع کمائے نیز سود و زیاں کے اس کھیل میں قوم کا کتنا زیاں ہوا.

ذکر تلخ ہے
16 دسمبر کا ذکر تلخ ہےاور اسے تلخی میں اضافہ ہوجاتا ہے. تلخی پر تلخی تب بڑھتی ہے جب آپ ایک سانحے کو بھلا دینے کے لئے سانحے پر سانحہ کا شوق پالتے ہیں. اس ذکر سے جہاں سیاست دان شرمندہ ہوجاتے ہیں وہی پر قوم بھی ایک ہلکسی آہ دل ہی دل میں نکال دیتی ہے، جو بے شرم ہے وہ ان آہوں میں اپنی ندامت کا سامان ڈھونڈنے کی بجائے اس ذکر کو شجر ممنوعہ سجمھتا ہے. سمجھ لیں جو سمجھتا ہے، میں تو یہ کہہ کر دل کا بوجھ ہلکا کر دیتا ہوں کہ تلخ لمحات کا ذکر تلخ ہی ہوگا جیسے نیم کے پتے منہ میں رکھنے سے گنے کی لذت نہیں ملتی اس طرح بعض واقعات اور لمحات میں نیم کی کڑواپن ازخود موجود ہوتاہے. اس لئے مان لینا چاہئے کہ اس ذکر کا کوئی لطف ہے ہی نہیں اگر ہے تو بھی نیم کے پتوں کی طرح کڑواہٹ ہے. تھوک دو یا پھر تھوک ہی نگل لو مگر ذکر کسی کے کہنے سے یا پھر سانحے پر سانحہ برپا کرنے سے کڑواہٹ ختم نہیں ہوتی.

دو قومی نظریہ
کہا گیا کہ ہندو مسلم دو الگ الگ نظریے ہیں، یہ بات سچ تھی کہ دونوں کا مذہبی نظریہ ایک دوسرے کےبر عکس تھا، ہے اور رہے گا. اسی الگ ہونے کو بنیاد بناتے وقت یہ نکتہ بھلادیا گیا کہ یہ دونوں اقوام صدیوں سے الگ تھے مگر صدیوں سے ایک ہی خطے کے مشترکہ مالک و وارث بھی تھے. دُکھ سُکھ میں شریک ہوا کرتے تھے. شکر گڑھ کےایک قصبے میں ایک حویلی ایک نظریہ والے کی جب کہ پہلی حویلی سے متصل دوسری حویلی دوسرے نظریے والے کی ملکیت تھی مگر قصبے کے قبرستان میں سب مل کر بندہ خدا کی تدفین کرتے تھےاور متصل شمشان گھٹ میں بندہ بھگوان کی چتا کو آگ لگایا کرتے تھے. دو مختلف نظریات کی وجود ایک ہی جگہ بلا چون و چرا ممکن تھا. ان ہی دو حویلیوں میں سے ایک حویلی ایک ہندو کی تھی جہاں ایک دن خبر پھیلی کہ گاوں کے آوارہ لوگ ان کی بیٹی اُٹھانے پہنچے ہیں تو دوسری حویلی سے ایک باوقار مسلمان نمبردار اُٹھ کر اُن کا مقابلہ کرتا ہےاور اُس حویلی کی عزت کو اپنی عزت قرار دے کر دفاع کرتا ہے. مذہبی نظریات مختلف ہونے کے باوجود کبھی متصادم نہیں‌تھے مگر ان کی علیحیدگی کا سیاسی رنگ ان کو ایک دوسرے کے عدو میں بدل دیا جو اب دونوں ملکوں میں اکھٹے رہ کر بھی وہ اپنائیت نہیں پاتے جو ان کے ہاں صدیوں سے دائم و قائم تھی.
اب زرا نظریے پر نظریے کی جنم کو ہی دیکھ لے جس نے اس ملک کا بیڑہ غرق کرچکا ہے.ایک خدا کو ماننے والے آپس میں دست و گریبان ہونے کے بعد اتنے دور ہو چکے ہیں کہ ایک دوسرے کا وجود ہی تسلیم نہیں ہوتا اور کُفر کے فتوے زور پکڑ چکے ہیں . مسلک سے مسلک بیزاری تک کے سفر کو اتنا آسان بنا دیا ہے کہ اب تو ادارے بھی مسلک دیکھ کر بنائے جانے لگے ہیں اور بہت سارے اداروں کو کوئی ایک مسلک بھا جاتا ہے. مسلکی سوچ کے فروغ سے مسلک پر تسلط قائم کرنے کا رواج عام ہے گویا ایسا لگتا ہے کہ ملک مسلکوں کی جھنگ کوپروان چڑھانے کے لئے بنایاگیاہو . انصاف کی فراہمی بھی چہرے پر مسلکی آثار دیکھ کر فراہم کیا جارہا ہے تو ایک طرف ریاست کو گمان ہے کہ ایک مسلک ہی ملک ہے اسی میں مسلک میں ریاست کی بقا ہے. قصہ مختصر وہ ایک نظریہ جس کی بنیاد پر پاکستان کو دین اسلام کے تجربہ گاہ کے طور پر بنایا گیا تھا وہ اب تقسیم در تقسیم ہوچکا ہے، تقسیم کا عمل اب نہیں بلکہ اس وقت ہوا جب رنگ دیکھ کر طعنے ملنے لگے.

معاشرتی رویوں میں دُوغلہ پن
،نظریے کا نام پر ملک تو حاصل کیا گیا مگر جس مقصد کے لئے حاصل کیا گیا تھا وہ مقصد تکمیل حاصل نہ کرسکا. بہت جلد ہی ہماری نیت خراب ہوئی ، رویے دوغلہ پن کا شکار ہوئے، بری عادتوں کی لت لگی اور ہرایک سرمایہ دار، ریاستی اہلکار، آلہ کار اور یہاں تک کی محافظ بھی چہروں کی خوبصورتی دیکھ کر اپنی ڈھلتی جوانی نہیں سنبھال سکے اور ملک کے ایک حصے کے عورتوں کو بنگالی حسیناوں پکار کر حوس کا نشانہ بنایا گیا. ہم سب یہ بھول گئے کہ بنگالی بھی تو اسی ایک نظریے کی بنیاد پر ہم رکاب ٹھہرے تھے ورنہ ان کی زبان الگ، کلچر ، رہن سہن سبھی الگ تھے. ہمارے ہاں ان کے مردوں کو کالے سانپوں کے طعنے پڑے تو پھر باری آئی سیاسی منافقت کی.

سیاست میں منافقت
دو قومی نظریہ تو معاشرتی حقیقت بن چکا تھا، اس نظریے کی بنیاد پر خود کو الگ قرار دینے یا دلانے والے شخصیات کی نیتوں پر شک بھی نہیں ہے حالانکہ اُس وقت کے کئی علماء تحریک پاکستان اور اس نظریے کے بھی حامی نہیں رہے، کچھ الگ ہوئے، کچھ چُپ رہے اور کچھ لکھتے اور بولتے رہے. ان تمام باتوں سے الگ ہوکر یہ کہا اور لکھا جائے کہ سیاسی منافقت میں دو قومی نظریہ کا کوئی پاپ نہ تھا تو پھر اس بنیاد پر سیاست کی جو اینٹ رکھی گئی وہ منافق کیوں نکلی. اُس سیاست کا دل اتنا سیاہ کیوں تھا حالانکہ خون کی ترسیل کا کام دینے والے دل کا رنگ تو سُرخ ہوتا ہے؟ کس نے ان کو سیکھایا کہ اُدھر تم اور ادھر ہم کا نعرہ بلند کیئے جاوے؟ یہ نعرے لگاتے وقت جمہور اور جمہوریت کی تعریف کیوں بدل دی گئی؟ صرف یہ کہنا کافی ہے کہ ایسے نعرے لگانے والے اور سازش میں شامل افراد خدا کی بے آواز لاٹھی سے لات کھا کر انجام کو پہنچے؟ میرے نزدیک ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے. سیاسی منافقت کی جو ابتداء ہوئی اُس کا انجام ابھی آنا باقی ہے. ایک ایسی سیاست جو ازل سے شائستہ گفتگو کی عادت نہیں ڈالی، صبر ایوب کا درس لی نہ دی، برداشت کے ہما کو اپنے کندھوں پہ بیٹھانے کی بجائے مفادات کے جن کو اپنے سرپر چڑھا دیا اُس کو کب ترس خدا یاد آیا، تب بھی نہیں آیا اور اب بھی نہیں آئے گا. جب آئے گا تب حالات یہی نہیں ہونگے اور بہت دیر ہوچکی ہوگی. تاریخی حوالہ جات کی بھر مار سے بہتر ہے کہ عصر حاضر کے اسلوب کو بہتر بنایا جائے، اُن رویوں جن سے تباہی ہوئی، بدلنے کی ضرورت ہے، اگر طرز سیاست مفادات تک محدود رہا تو پھر تقسیم در تقسیم گروہوں میں ایک ایسی کھینچاتانی شروع ہوگی جو سب کے وجود کی ڈوریوں کو الجھا کر رکھ دے گی. منافقت سے بھرپور سیاست کو ایک متوازن، آزاد؛ مداخلت سے آزاد، مفادات سے آزاد، خوف سے آزاد، لالچ و حرص سے آزاد، بے ڈھنگی اور بے تکی سے آزاد نہیں کرتے تب تک ہر نظریے کو ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا. خواہ وہ نظریہ ایک قوم ، ایک دین، ایک ریاست یا پھر ایک سوچ کی ہی کیوں نہ ہو.
سوال تو اُٹھتا ہے کہ کون ہوگا یہ سب کرنے والا؟ اس کا جواب شاید کسی کے پاس ہو.

شجاعت کا دعویدار محافظ
ان اکیاون سالوں میں سب سے زیادہ پوچھنے والا سوال بھی یہ ہے کہ جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا تو اُس وقت کیا صرف عمومی معاشرتی رویے، منافقت پر مبنی سیاست اور مفادات کے آگے ڈھیر سیاستدان ہی ذمہ دار تھے؟ اب تو یہ سوال ہمارے سابق سپہ سالار باجوہ کے جانے کے بعد ہر بچہ بچہ پوچھنے لگا ہے کہ آخر ہمارے محافظ کہاں تھے؟ ایسے معصوم سوالوں کے آسان جواب ہوا کرتے ہیں مگر آسان جوابات کی تشہیر اتنا آسان نہیں ہوتا. بظاہر تاریخ تو اُس سپہ سالار کی رنگ رلیوں کے ذکر سے بھری پڑی ہے جو بیک وقت طاقت اور سیاست پر قابض تھا. بیلٹ اور پستول ٹیبل پر رکھتے ہی حسیناوں کی جھرمٹ میں مدہوش ہونے والے کو کہاں فکر لاحق تھی کہ کیا ٹوٹ رہا ہےاور کہاں خون کی بارش ہورہی ہے.
اب یہ کہنا کہ اکیاون سال بعد اس ذکر سے تلخی پھیل جاتی ہے، یقینا پھیلتی ہوگی مگر کہیں تو ہمیں سوچنے کا موقع بھی ملتاہوگا کہ آخر کیا سیکھا ہم نے ان اکیاون سالوں میں؟ چلے ماضی کو بھول ہی جانا بہتر ہے. پاکستان کو ٹوٹے، بنگلہ دیش کو بنے 51 سال پورے ہوگئے اس موقع پر خود کو صبر اور برداشت کی تلقین جب کہ بنگالیوں کی بنگلہ دیش کی ترقی اور خوشحالی پر مبارکباد دینا نسبتآ آچھا، سچا اورسلجھا رویہ ہے. بنگالیوں کو مبارکباد کے ساتھ خود کو یہ سبق دینا بھی ضروری ہے کہ عمومی رویوں سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ مملکت خداداد کو دوام مل سکے، وہ وعدہ پورہ ہو جو بانی قوم نے سب کیساتھ کیا تھا، اُس مقصد کا حصول ہو جس کے لئے اس کی بنیاد رکھی گئی.
اب آخری بات یہ ہے کہ ملک صرف سیاست، عدالت اور شہریت سے ترقی نہیں پاتا بلکہ ایک طاقتور فوج کی اشد ضرورت ہے مگر فوج بطور محافظ ایک اعلیٰ کرداد نبھا سکتی ہے.اس ملک کی فوج کو کسی بات پر ناراض ہوئے بغیر اپنا آئینی فرض نبھانا ہوگا. ملک دولخت ہوتے وقت بد قسمتی سے ایک سپہ سالار کا کردار بھی بہت سارے عوامل اور سیاست دانوں کے ساتھ داغدار رہا جو نہ صرف ملک کو نقصان دیا بلکہ فوج کو ناقابل طلافی اذیت دی. اب فوج کو اپنے لوگوں میں خوف پیدا کرکے تجارتی سر گرمیاں بڑھانے سے دفاعی صلاحیت پرتوجہ دینے میں ملک کی بقا کا راز مضمر ہے. غیرآئینی اقدامات اور بڑھتی تجارتی سر گرمیوں سے عوام ، اہل دانش اور فوج کے درمیان خلیج بڑھ رہا ہے یہ خلیج کسی صورت ملک کے مفاد میں نہیں ہے.
اُمید ہے کہ اس دفعہ کا 16 دسمبر عسکری قیادت میں تبدیلی کے ساتھ سوچ میں بھی تبدیلی، سیاسی قائدین میں ملکی مفادات اور عام عوام میں رویوں کی تبدیلی کا درس عام کرے گا تاکہ سب کو سوچنے کا ایک موقع ہے کہ پاکستان کیوں ٹوٹا، بنگلہ دیش کیوں بنا؟ ساتھ ساتھ یہ بھی سوچنے کا موقع ہے کہ بنگلہ دیش کہاں کھڑا ہے اور ہم کہاں پر بے سرو سامان پڑاو ڈال چکے ہیں.

#rnn

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے