پشتون سماج کا ماضی حال اورمستقبل: ڈاکٹر قاسم مروت
پشتون سماج کی گم گشتہ ماضی، شکست خوردہ حال اور ناگفتہ بہ مستقبل جدید مؤرخین، سیاسی مبصرین اور معاشرتی علوم کے ماہرین کےلئے سب سےمشکل اورپیچیدہ موضوعات ہیں، جن پر سنجیدہ تحقیق اور منظم تجرید کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کی سماجی نفسیات کو سمجھنے کے لئے اس خطے کی تاریخی پس منظر اور سماجی ارتقاء کے عمل کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
آج کے پشتون کی مزاج، روح، میلان طبع، ذہنی کیفیات، شعور، ادراک، اقدار، روایات، رسم و رواج، توہمات اور غیر مادی ثقافت کی بہت سارے شعائرکی جڑیں خانہ بدوش سماج میں جڑی ہوئی ہیں، کچھ روایات کے تانے بانے قبائلی سماج کی عکاسی کرتے ہیں، اور ان کے تہذیب و تمدن کے کچھ مادی اور ظاہری خدوخال کے حوالے مغل استبداد اور برطانوی سامراج کے نوآبادیاتی نظام کے شاہکار نظر آتے ہیں۔ چونکہ اس خطے کی تاریخ و سیاست کے متعلق زیادہ ترداستانیں مغل دربار اور برطانوی سرکار کے استعماری سوچ کے زیر اثر لکھی گئی ہیں، جو اکثر خود ساختہ تاریخی مواد اور بیانیوں سے عبارت ہیں، اور جس پر سامراجی افکار کے ایسے گہرے چھاپ لگے ہوئے ہیں، کہ نہ صرف عقلی اور منطقی طور پر ناقابل قبول اور ناقابل فہم ہیں، بلکہ علمی حوالوں سے بھی گمراہ کن ہیں۔ ظاہر ہے، یہ تاریخ سامراجی سیاق وسباق میں استعماری مفادات اور اشکالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تدوین کی گئی ہے، جس کے مطابق پشتون سماج کی نفسیات، روایات، رسومات، اقدار، تشخص اور کردار کو نہ صرف بری طرح مسخ کر دیا گیا ہے، بلکہ اس کی غیر فطری اور مصنوعی توضیح کرکے ان کے رول کوان کے جینیاتی سرشت، فطرت اور معروضی حقائق کے برعکس پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے، کہ اس مصنوعی تشخص اور رول کےساتھ ان کو گزشتہ کئی صدیوں سے اس خطے میں سامراجی مقاصد کے حصول کے لئے لڑی جانے والی جنگوں کی لامتناہی سلسلوں میں سستی ایندھن اور موثرآلہ ہائے کار کے طور پر استعمال کیاگیا ہے۔ یہی وجہ ہے، کہ آج بھی پورے خطے کی امن اور جنگ کے قضیے ملت افاغنہ کے اس گھناؤنے اور ڈراؤنے کردارکے گرد گھوم رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے، کہ مسخ شدہ تاریخ کے ذریعے ان لوگوں کا اجتماعی حافظہ بگاڑ دیا گیا ہے، اور ان کو شعور خام کے مخمصے میں الجھا کرنئی، مصنوعی اور مسخ شدہ تشخص دے دی گئی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے، کہ اس مسخ شدہ تشخص کے ساتھ پشتونوں کو اپنے آبائی اور تاریخی مسکن میں اجنبی،نووارد، حملہ آور، فاتح، جنگجو، بہادر، ڈاکو، لٹیرا، غیرتمند، حریت پسند اور عسکریت پسند کردار کے ساتھ ساتھ، نہیں معلوم، کس کس روپ میں پیش کرنےکی کوشش کی گئی ہے، اور ان کو مضموم مقاصد کے لئے اس خطے میں بار بار استعمال کیا گیا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے، کہ پشتون فطرتآ ہرگز ایسے نہیں۔ ان کے متعلق اکثر تاریخی نظریات، مفروضات اور تصورات گمراہ کن، غلط اور بے بنیاد ہیں۔ وہ نہ توبنی اسرائیل کے گمشدہ قبیلے کے کسی گم گشتہ شاخ سے تعلق رکھتے ہیں، نہ ایرانی ہیں، نہ تورانی اور نہ ہی یونانی ہیں۔ یہ لوگ جنییاتی طور پر مختلف النوع اورمخلوط النسل ہیں، جو مختلف نسلوں کے باہمی ملاپ اور اخطلاط کی وجہ سے اس خطے کی مٹی سے پیدا ہوئے ہیں، اور اس علاقے کی طول و ارض میں فروغ پا چکےہیں۔ یہ لوگ وسطی اور جنوبی ایشیاء کے درمیان بہنے والے دریاؤں، ندی نالوں، ان دو خطوں کو ملانے والی شاہراہوں، دروں اور اس کے ارد گرد پھیلے ہوئےکہساروں اور وادیوں کے مستقل باسی ہیں۔ چونکہ یہ لوگ سماجی طور پر خانہ بدوش تھے، اس لئے ان کی کوئی مستقل سکونت نہیں تھی۔ یہ لوگ زمینداریاور چاردیواری کے قید سے آزاد اپنی وادیوں کے دامن میں خودمختار زندگی کے عادی تھے، اور صدیوں سے ساربانی اور ریوڑبانی کے تقاضوں کےمطابق،موسمی حالات کے رحم وکرم اور تغیرات زمانہ کے اونچ نیچ کے ساتھ ساتھ اپنی سکونت بدلتے رہتے تھے۔ چند صدیوں پہلے تک ان لوگوں کی غالب اکثریت خانہ بدوش تمدن اور ریوڑبان معیشت کے ساتھ اس خطے کے طول و ارض میں پھرا کرتے تھی۔ لیکن گزشتہ کئی صدیوں سے ان لوگوں کی زندگیوں نےاپنے تاریخ کے کئی مشکل اور پراشوب انقلابات دیکھے ہیں۔ ان انقلابات کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق مغلیہ سلطنت کے زوال، اس خطے میں برطانوی سامراج کی پھیلتی ہوئی اثرو نفوز، نادر شاه اور احمد شاہ ابدالی کے ہندوستان پر پے در پے حملوں، افغان ریاست کی قیام، سکھ ریاست کی تشکیل، برطانوی سامراج کی شمال مغربی سرحدات کی طرف توسیع اور پاکستانی ریاست کی قیام کے حوالے سے قابل ذکر ہیں۔ان انقلابات کے نتیجے میں پشتون سماج کی فطری ارتقاء کا عمل نہ صرف بار بار، رک رک کر، تلپٹ ہوتا رہا، بلکہ سامراجی پالیسیوں اور گرینڈ گیم کے تقاضوںکے مطابق مصنوعی طور پر نئے تجربات اور تغیرات کا شکار بھی ہوتا رہا۔ مصنوعی تغیرات کے اس عمل کے نتیجے میں ان لوگوں کی زندگیوں میں مندرجہ ذیل سماجی اور اقتصادی تبدیلیاں لائی گئیں۔
1۔ وسط ایشیا میں طاقت کی خلا کو پر کرنے کے لئے افغان ریاست کی تشکیل کردی گئی۔
2۔ افغان ریاست کی معیشت کو جنگ و جدل، کشور کشائی، ننگی جارحیت اور بربریت کے معروف اصولوں کے ساتھ مربوط کردی گئی۔
3۔ احمد شاہ ابدالی نے پرامن خانہ بدوش آبادیوں کو عسکری خطوط پر منظم کیا، غیر مسلح خانہ بدوش گروہوں اور پاوندہ کاروانوں کو لشکر کشی کے مقاصد کے
لئےاستعمال کیا گیا اور موسمی حالات کے مطابق ان کی لشکر سازی کی گئی۔
4۔ ساربانی اور ریوڑبانی کی پرامن معیشت کو آہستہ آہستہ لوٹ کھسوٹ، خراج، جنگ، ننگ اور قلنگ کی معیشت میں تبدیل کر دیا گیا۔
5۔ اس مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر درے، شاہراہ اور وادی کو مسلح کرنے کا انتظام کردیا گیا اور خانہ بدوش کاروانوں کے راستوں میں اسلحہ ساز کاریگر اورہنرمند آباد کردئیے گئے، جس کی وجہ سے اسلحہ کی تجارت کو فروغ دیا گیا۔
6۔ افغان عسکریت کو ایک طرف برطانوی حکمت عملی کے مطابق مغلوں اور مرہٹوں کے خلاف استعمال کیا گیا، جبکہ دوسری طرف وسط ایشیا کے چھوٹےچھوٹے امارات کے خلاف استعمال کیا گیا، دونوں صورتوں میں فائدہ برطانوی سامراج کو ہوا۔
7۔ افغان ریاست کا زور سکھوں کی جتھا بند ریاست کے زریعے توڑ دیا گیا، اور سکھ ریاست کا خاتمہ خود برطانوی سامراج نے اپنے ہاتھوں سے کیا۔
8۔ برطانوی سامراج کی کشور کشائی اور فوجی فتوحات کے نتیجے میں خانہ بدوش پشتون سماج کو مصنوعی طریقے سے، آہستہ آہستہ، نیم قبائلی اور نیم زرعی سماج میں بدلنے کی کوشش کی گئی اور ان کے مذہبی عقائد، مخصوص روایات اور رسوم و رواج کو سامراجی تقاضوں کے عین مطابق پشتون کوڈ یا "پشتونولی” کے روایتی نظام حیات کےطور پر فروغ دیا گیا۔
9۔ برطانوی سامراج کی سرپرستی میں اس نیم قبائلی سماج کو قبل از وقت، مصنوعی طور پر، نوآبادیاتی نظام کے اندرونی محرکات کی روشنی میں قومی تشخص،پہچان اور وضع قطع دینے کی کوشش کی گئی۔
10۔ گزشتہ تین سو سال سے ان لوگوں کی تقدیر برطانوی سامراج کی فارورڈ پالیسی اور کلوزڈ ڈور پالیسی سے وابستہ ہے۔ اس خطے کی امن اور جنگ کےمعاملات گرینڈ گیم کے بیرونی عوامل اور محرکات سے وابستہ ہیں جس میں پشتون صرف ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے، کہ آج کا پشتون ذہنی طور پر نیم خانہ بدوش اور سماجی طور پر نیم قبائلی خصوصیات اور روایات کا حامل ہے، جن کو مغل اور برطانوی سامراج نےنوآبادیاتی نظام کے تقاضوں کے مطابق مصنوعی طور پر زبردستی دیہی، شہری اور قومی مدنیت کے ڈھانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ پشتون نفسیات کوسمجھنے کے لئے خانہ بدوش سماج کے خصوصیات، قبائلی سماج کے خدوخال اور نوآبادیاتی سماج کی طرز زندگی اور تہذیب و تمدن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
(جاری ہے)
#pushtoonshistory #RNN #RNNblogs